حرف آغاز

عشق نبوی کے تقاضے یہ بھی ہیں

محمد سلمان بجنوری

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   

                       

ربیع الاوّل کا مہینہ آگیا ہے اوراس ماہ مبارک میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ کی مناسبت سے اظہار عقیدت ومحبت کے بے شمار مظاہر کا سلسلہ بھی جاری ہے، جلوس ومیلاد جیسی خلاف سنت رسوم سے قطع نظر، اگر صرف سیرت کے موضوع پر منعقد ہونے والے جلسوں کا جائزہ لیاجائے تو بلا خوف تردید کہاجاسکتا ہے کہ دنیامیں کسی موضوع پر اتنی بڑی تعداد میں بیانات اور جلسے نہیں ہوتے ہوں گے  جتنے سیرت نبوی کے موضوع پر ہوتے ہیں۔ پھر جس طرح یہ حقیقت ہے کہ جلوس ومیلاد جیسی مبتدعانہ رسوم، قابل ترک ہیں اسی طرح یہ بھی سچائی ہے کہ ہمارے جلسہ ہائے سیرت (بلکہ ہر موضوع کے جلسے) بھی بہت سے پہلوئوں سے اصلاح کے مستحق ہیں اور بلاشبہ ان امور پرتوجہ دلانا بھی ضروری اور وقت کا تقاضا ہے اور علماء کرام اس تقاضے کی تکمیل بھی کسی نہ کسی درجے میں کرتے ہی ہیں؛ لیکن سردست ان امور پر گفتگو نہ کرکے یہ عرض کرنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بلاشبہ تقاضائے ایمان؛ بلکہ شرط تکمیل ایمان ہے، جس کااظہار بھی لازم ہے؛ لیکن اس کے لیے سال کے متعینہ ایام میں جلسے جلوس یا دیگر مظاہر عقیدت کا اہتمام قطعاً کافی نہیں ہے اور اگر خلاف سنت ہو تو درست بھی نہیں ہے؛ بلکہ دراصل جو چیز ضروری ہے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پہچاننا اور ان کی ادائیگی کے لیے سارے سال بلکہ ساری زندگی محنت کرنا ہے؛ واقعہ یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کا موضوع ایسا ہے جو ہم لوگوں نے بڑی حد تک نظر انداز کررکھا ہے، جب کہ قرآن وحدیث میں بڑی اہمیت کے ساتھ اس کو بیان کیاگیا ہے اور علماء امت نے کتب حدیث وسیرت میں بھی اس موضوع کا حق ادا کیا ہے اور مستقل اسی موضوع پر بھی کتابیں لکھی ہیں، اس سلسلے میں جس کتاب کو بجا طور پر شہرت دوام حاصل ہے وہ قاضی عیاض مالکیؒ متوفی ۵۴۴ھ کی  ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ ہے دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب اپنے موضوع پر سند اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اس کے بعد بھی اس موضوع پر مختلف کام سامنے آئے ہیں بالخصوص ماضی قریب میں جب دشمنان اسلام کی جانب سے توہین رسالت کے واقعات پے درپے پیش آئے تو علماء کرام نے امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حقوق کی ادائیگی پر نئے سرے سے متوجہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

            ظاہر ہے کہ ان سطور میں اس مبارک ووسیع موضوع پر کسی تفصیلی اظہار خیال کا امکان نہیں ہے؛ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع کی کتابوں میں جو حقوق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کیے گئے ہیں ان میں سے نمایاں حقوق کا تذکرہ اجمالی انداز سے کردیا جائے۔ ان حقوق کی تعداد اور ترتیب مختلف کتب میں الگ الگ ہے اور قرآن وحدیث میں بھی یہ متفرق طور پر بیان ہوئے، سردست ان میں سے دس حقوق کی فہرست پیش کی جاتی ہے۔

            (۱)       الإیمان بہ:  یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانا، یہ آپ کا سب سے پہلا حق ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اللہ رب العزت کی طرف سے جو کچھ بھی لے کر آئے اس کے ہر ہر جزء کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا، نیز آپ کی رسالت کوساری دنیا کے لیے عام سمجھنا اور آپ کو آخری پیغمبر تسلیم کرنا۔

            (۲)       محبتہ :  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا، اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے تمام لوگوں سے، اپنے والدین سے، اپنی اولاد سے اور خود اپنی ذات سے جو محبت ہے اس سے بڑھ کر آپ سے محبت کرنا۔ اس کے بغیر کسی بھی مسلمان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا ہے۔

            (۳)      اتباعہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرنا: یعنی اپنی زندگی کے ہر عمل میں طریقۂ نبوی کو اختیار کرنا، اپنی ہر خواہش کو شریعت کے تابع کردینا اور عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اور معاشرت میں اپنے آپ کو سنت کے سانچے میں ڈھال لینا۔

            (۴)      توقیرہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب کرنا: یہ حق بھی قرآن وحدیث میں وضاحت سے بیان کیاگیا ہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ سے نسبت رکھنے والی تمام شخصیات اور اشیاء کا دل سے احترام داخل ہے جس کی مثالیں حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عملی نمونوں میں نمایاں ہیں۔

            (۵)      الصلاۃ علیہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا، یہ بھی آپ کا ایک اہم اور لازمی حق ہے جس کی تاکید قرآنی آیات سے لے کر احادیث شریفہ تک پرزور انداز میں بیان کی گئی ہے۔

            (۶)       الذب عنہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنا: یہ بھی آپ کا ایک لازمی حق ہے بالخصوص ان اوقات میں جب دشمنانِ دین وانسانیت کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا جرم سامنے آئے تو اس کے جواب میں، دوسرے مذہبی پیشوائوں کے ساتھ بے ادبی کے بغیر، نہایت قوت سے بھرپور طریقہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنا اس امت کا فریضہ ہے۔

            (۷)      النصر لدینہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مدد کرنا، اس میں دین کی تائید وتقویت اور نشر واشاعت کی تمام کوششیں شامل ہیں۔

            (۸)      محبۃ أہل بیتہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے محبت کرنا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اہل بیت اطہار یعنی آپ کی ذریت مطہرہ اور ازواج مطہرات سے محبت بھی آپ کا حق اور ایمان کا تقاضا ہے اور اس میں بھی کوتاہی کرنا، بڑی محرومی کی بات ہے۔

            (۹)       محبۃ صحابتہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرامؓ سے محبت کرنا، یہ بھی آپ ہی کے حقوق میں آتا ہے؛ اس لیے کہ حدیث کی رُوسے صحابہؓ کی محبت بھی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر ہوتی ہے اور صحابہ سے دل میں بغض یا میل رکھنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی علامت ہے۔

            (۱۰)     موالاۃ أولیائہ بغض أعدائہ:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں سے رشتہ استوار رکھنا اور آپ کے دشمنوں سے بغض رکھنا۔ واضح رہے کہ آپ سے محبت کرنے والوں کی بنیادی پہچان اتباع سنت ہے۔

            یہ دس امور کی ایک مختصرسی فہرست ہے جو اس وقت اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہے، ان میں ہر ایک جزء پر قرآن وحدیث کے واضح دلائل موجود ہیں، جن کی تفصیل پیش کرنے کے لیے دوسری فرصت کا انتظار ہے۔ سردست تو یہ عرض کرنا ہے کہ امت مسلمہ اگر اپنے حال ومستقبل کو درست کرنے اور رکھنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اپنی خواہشات یا رسوم ورواج کو خیرباد کہہ کرسنت کے اس راستے پر آنا چاہیے اور اپنے اور انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا حقوق کی ادائیگی کے لیے کمربستہ ہوجانا چاہیے۔

$  $  $

------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم‏، شمارہ: 12،  جلد:101‏، ربیع الاول –ربیع الثانی 1439ہجری مطابق دسمبر 2017ء